Iqbal Teri Qaum Ka Iqbal Kho Gaya

Iqbal Teri Qaum Ka Iqbal Kho Gaya

اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا
ماضی تو سنہرا ہے مگر حال کھو گیا

وہ رعب و دبدبہ وہ جلال کھو گیا
وہ حسن بے مثال وہ جمال کھو گیا

ڈوبے ہیں جوابوں‌ میں مگر سوال کھو گیا
اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا

اُڑتے جو فضاؤں میں تھے شاہین نہ رہے
باذوق نہ رہے ذہین نہ رہے

پاکیزہ گر نہ رہے با دین نہ رہے
وہ لال و گلزار وہ مہ جبیں نہ رہے

مومن کا وہ انداز باکمال کھو گیا
اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا

علامہ اقبال

lazim tha ki dekho mera rasta koi din aur

lazim tha ki dekho mera rasta koi din aur

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور
مٹ جائےگا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور
آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’جاؤں؟‘
مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو ’قیامت کو ملیں گے‘
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور
تم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور
تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اور
مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور
گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور
ناداں ہو جو کہتے ہو کہ ’کیوں جیتے ہیں غالب‘
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور

مرزا غالب

Insha ji utho ab kooch karo lyrics

Insha ji utho ab kooch karo lyrics

انشإ جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا

اس دل کے دریدہ دامن میں دیکھو تو سہی،سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے،اس جھولی کا پھیلانا کیا

شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا، زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانہ کیا

اس حسن کے سچے موتی کو ہم دیکھ سکیں اور چھو نہ سکیں
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں، وہ دولت کیا خزانہ کیا

پھر ہجر کی لمبی رات میں سنجوک کی ہے تو ایک گھڑی
جو دل میں ہے لب پر آنے دو شرمانہ کیا گھبرانا کیا

اس روز کو ان کو دیکھا ہے اب خوان کا عالم لگتا ہے
اس روز جو ان سے بات ہوئی وہ بات بھی کیا افسانہ کیا

اس کو بھی جلا دہکتے ہوئے من، اک شعلہ آگ بھبھولا بن
یوں آنسو میں بہہ جانا کیا، یوں مٹی میں مل جانا کیا

جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں،کیوں بن میں نہ جا بس رام کریں
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا

ابن انشاء

Is ka socha bhi na tha ab ke jo tanha guzri

Is ka socha bhi na tha ab ke jo tanha guzri

اِس کا سوچا بھی نہ تھا اب کے جو تنہا گزری
وہ قیامت ہی غنیمت تھی جو یکجا گزری

آ گلے تجھ کو لگا لوں میرے پیارے دشمن
اک مری بات نہیں تجھ پہ بھی کیا کیا گزری

میں تو صحرا کی تپش، تشنہ لبی بھول گیا
جو مرے ہم نفسوں پر لب ِدریا گزری

آج کیا دیکھ کے بھر آئی ہیں تیری آنکھیں
ہم پہ اے دوست یہ ساعت تو ہمیشہ گزری

میری تنہا سفری میرا مقدر تھی فراز
ورنہ اس شہر ِتمنا سے تو دنیا گزری

احمد فراز

Inhi khush gumaniyon men kahin jaan se na ja

Inhi khush gumaniyon men kahin jaan se na ja

انہی خوش گمانیوں میں کہیں جاں سے بھی نہ جاؤ
وہ جو چارہ گر نہیں ہے اسے زخم کیوں دکھاؤ
یہ اداسیوں کے موسم یونہی رائیگاں نہ جائیں
کسی یاد کو پکارو کسی درد کو جگاؤ
وہ کہانیاں ادھوری جو نہ ہو سکیں گی پوری
انہیں میں بھی کیوں سناؤں انہیں تم بھی کیوں سناؤ
یہ جدائیوں کے رستے بڑی دور تک گئے ہیں
جو گیا وہ پھر نہ آیا مری بات مان جاؤ
کسی بے وفا کی خاطر یہ جنوں فراز کب تک
جو تمہیں بھلا چکا ہے اسے تم بھی بھول جاؤ

احمد فراز

Kuch aisa Itra mein is sang dil ke sheeshay mein

Kuch aisa Itra mein is sang dil ke sheeshay mein

کچھ ایسا اترا میں اس سنگ دل کے شیشے میں
کہ چند سانس بھی آئے نہ اپنے حصے میں
وہ ایک ایسے سمندر کے روپ میں آیا
کہ عمر کٹ گئی جس کو عبور کرنے میں
مجھے خود اپنی طلب کا نہیں ہے اندازہ
یہ کائنات بھی تھوڑی ہے میرے کاسے میں
ملی تو ہے مری تنہائیوں کو آزادی
جڑی ہوئی ہیں کچھ آنکھیں مگر دریچے میں
غنیم بھی کوئی مجھ کو نظر نہیں آتا
گھرا ہوا بھی ہوں چاروں طرف سے خطرے میں
مرا شعور بھی شاید وہ طفل کمسن ہے
بچھڑ گیا ہے جو گمراہیوں کے میلے میں
ہنر ہے شاعری شطرنج شوق ہے میرا
یہ جائیداد مظفر ملی ہے ورثے میں

(مظفر وارثی)

 

Jab bahar aai to sehra ki taraf chal nikla

Jab bahar aai to sehra ki taraf chal nikla

جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا
صحنِ گل چھوڑ گیا، دل مرا پاگل نکلا
جب اُسے ڈھونڈنے نکلے تو نشاں تک نہ ملا
دل میں موجود رہا، آنکھ سے اوجھل نکلا
اک ملاقات تھی جو دل کو سدا یاد رہی
ہم جسے عمر سمجھتے تھے، وہ اک پل نکلا
وہ جو افسانۂ غم سن کے ہنسا کرتے تھے
اتنے روئے ہیں کہ سب آنکھ کا کاجل نکلا
ہم سکون ڈھونڈنے نکلے تھے پریشان رہے
شہر تو شہر ہے، جنگل بھی نہ جنگل نکلا
کون ایوب پریشان نہیں تاریکی میں
چاند افلاک پہ، دل سینے میں بے کل نکلا

(ٓایوب رومانی)

Koi Hasrat Bhi Nahi Koi Tamanna Bhi Nahi

Koi Hasrat Bhi Nahi Koi Tamanna Bhi Nahi

کوئی حسرت بھی نہیں کوئی تمنا بھی نہیں
دل وہ آنسو جو کسی آنکھ سے چھلکا بھی نہیں
روٹھ کر بیٹھ گئ ہمت دشوار پسند
راہ میں اب کوئی جلتا ھوا صحرا بھی نہیں
آگے کچھ لوگ ھمیں دیکھ کے ھنس دیتے تھے
اب یہ عالم ھے کہ کوئی دیکھنے والا بھی نہیں
درد وہ آگ کہ بجھتی نہیں جلتی بھی نہیں
یاد وہ زخم کہ بھرتا نہیں ، رستا بھی نہیں
باد باں کھول کے بیٹھے ھیں سفینوں والے
پار اترنے کے لیے ہلکا سا جھونکا بھی نہیں

شاعر احمد راہی