Haal dil jis ne suna giryaa kya | Ibn-e-Insha

حال دل جس نے سنا گریہ کیا
ہم نہ روئے ہا ں ترا کہنا کیا

یہ تو اک بے مہر کا مذکورہ ہے
تم نے جب وعدہ کیا ایفا کیا

پھر کسی جان وفا کی یاد نے
اشک بے مقدور کو دریا کیا

تال دو نینوں کے جل تھل ہو گئے
ابر رسا اک رات بھر برسا کیا

دل زخموں کی ہری کھیتی ہوئی
کام ساون کا کیا اچھا کیا

آپ کے الطاف کا چرچا کیا
ہاں دل بے صبر نے رسوا کیا

شاعر ابن انشاء

Sab moh maya hai | Ibn-e-Insha

سب مایا ہے، سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے

اس عشق میں ہم نے جو کھویا جو پایا ہے

جو تم نے کہا ہے، فیض نے جو فرمایا ہے

سب مایا ہے

ہاں گاہے گاہے دید کی دولت ہاتھ آئی

یا ایک وہ لذت نام ہے جس کا رسوائی

بس اس کے سوا تو جو بھی ثواب کمایا ہے

سب مایا ہے

اک نام تو باقی رہتا ہے، گر جان نہیں

جب دیکھ لیا اس سودے میں نقصان نہیں

تب شمع پہ دینے جان پتنگا آیا ہے

سب مایا ہے

معلوم ہمیں سب قیس میاں کا قصہ بھی

سب ایک سے ہیں، یہ رانجھا بھی یہ انشا بھی

فرہاد بھی جو اک نہر سی کھود کے لایا ہے

سب مایا ہے

کیوں درد کے نامے لکھتے لکھتے رات کرو

جس سات سمندر پار کی نار کی بات کرو

اس نار سے کوئی ایک نے دھوکا کھایا ہے

سب مایا ہے

جس گوری پر ہم ایک غزل ہر شام لکھیں

تم جانتے ہو ہم کیونکر اس کا نام لکھیں

دل اس کی بھی چوکھٹ چوم کے واپس آیا ہے

سب مایا ہے

وہ لڑکی بھی جو چاند نگر کی رانی تھی

وہ جس کی الھڑ آنکھوں میں حیرانی تھی

آج اس نے بھی پیغام یہی بھجوایا ہے

سب مایا ہے

جو لوگ ابھی تک نام وفا کا لیتے ہیں

وہ جان کے دھوکے کھاتے، دھوکے دیتے ہیں

ہاں ٹھوک بجا کر ہم نے حکم لگایا ہے

سب مایا ہے

جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہرجائی ہے

اس شہر سے دور ایک کُٹیا ہم نے بنائی ہے

اور اس کُٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے

سب مایا ہے

شاعر ابن انشاء

Phirta Liye Chaman Main Hai Deewanapan Mujhe | Ibrahim Zauq

پھرتا لےا چمن مںھ ہے دیوانہ پن مجھے
زنجرِ پا ہے موجِ نسمِا چمن مجھے

ہوں شمع یا کہ شعلہ خبر کچھ نہںا مگر
فانوس ہو رہا ہے مراا پرھاہن مجھے

کوچے مں ترمی کون تھا لتا بھلا خبر
شب چاندنی نے آ کے پہنایا کفن مجھے

دکھلاتا اک ادا مںا ہے سو سو بناؤ
کس سادہ پن کے ساتھ تر ا بانکپن مجھے

آیا ہوں نور لے کے مںی بزمِ سخن مں ذوق
آنکھوں پہ سب بٹھائںے گے اہلِ سخن مجھے

شاعر ابراہیم ذوق

Layi hayat aaye kaza le chali chale | Ibrahim Zauq

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے

بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے

ہو عمرِ خضر بھی تو کہیں گے بوقتِ مرگ
ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے

دنیا نے کس کا راہِ فنا میں دیا ہے ساتھ
تم بھی چلے چلو یونہی جب تک چلی چلے

نازاں نہ ہو خِرد پہ جو ہونا ہے وہ ہی ہو
دانش تری نہ کچھ مری دانشوری چلے

کم ہوں گے اس بساط پہ ہم جیسے بدقمار

جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے
جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوق
اپنی بلا سے بادِ صبا اب کبھی چلے

ابراہیم ذوق

Ab tu ghabra ke ye kehte | Mohammad Ibrahim Zauq

Ab tu ghabra ke ye kehte

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
چڑھ کے گر آئے تو نظروں سے اتر جائیں گے

سامنے چشم گہر بار کے کہہ دو دریا

اور اگر کچھ نہیں دو پھول تو دھر جائیں گے لائے جو مست ہیں تربت پہ گلابی آنکھیں
پہلے جب تک نہ دو عالم سے گزر جائیں گے بچیں گے رہ گزر یار تلک کیونکر ہم
جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی
بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ سے
مہر و مہ نظروں سے یاروں کی اتر جائیں گے رخِ روشن سے نقاب اپنے الٹ دیکھو تم
پر یہی ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے شعلہ آہ کو بجلی کی طرح چمکاؤں
ان کو مہ خانہ میں لے آؤ سنور جائیں گے ذوق جو مدرسہ کے بگڑے ہوئے ہیں مُلا

شاعر ابراہیم ذوق

تم اور فریب کھاؤ بیانِ رقیب سے

تم اور فریب کھاؤ بیانِ رقیب سے
تم سے تو کم گِلا ہے زیادہ نصیب سے

گویا تمہاری یاد ہی میرا علاج ہے
ہوتا ہے پہروں ذکر تمہارا طبیب سے

بربادِ دل کا آخری سرمایہ تھی امید
وہ بھی تو تم نے چھین لیامجھ غریب سے

دھندلا چلی نگاہ دمِ واپسی ہے اب
آ پاس آ کہ دیکھ لوں تجھ کو قریب سے

شاعر آغا حشر

یاد میں تیری جہاں کو بھولتا جاتا ہوں میں

یاد میں تیری جہاں کو بھولتا جاتا ہوں میں
بھولنے والے، کبھی تجھ کو بھی یاد آتا ہوں میں

اک دھندلا سا تصور ہے کہ دل بھی تھا یہاں
اب تو سینے میں فقط اک ٹیس سی پاتا ہوں میں

آرزؤں کا شباب اور مرگ حسرت ہائے ہائے
جب بہار آئی گلستاں میں تو مرجھاتا ہوں میں

حشر میری شعر گوئی ہے فقط فریاد شوق
اپنا غم دل کی زباں میں، دل کو سمجھاتا ہوں میں

آغا حشر 

درد کم ہونے لگا آؤ کہ کچھ رات کٹے

درد کم ہونے لگا آؤ کہ کچھ رات کٹے
غم کی معیاد بڑھا جاؤ کہ کچھ رات کٹے

ہجر میں آہ و بکا رسمِ کہن ہے لیکن
آج یہ رسم ہی دہراؤ کہ کچھ رات کٹے

یوں توتم روشنئ قلب و نظر ہو لیکن
آج وہ معجزہ دکھلاؤ کہ کچھ رات کٹے

دل دکھاتا ہے وہ مل کر بھی مگر آج کی رات
اُسی بے درد کو لے آؤ کہ کچھ رات کٹے

دم گھٹا جاتا ہے ہے افسردہ دلی سے یارو
کوئی افواہ ہی پھیلاؤ کہ کچھ رات کٹے

میں بھی بیکار ہوں اور تم بھی ہو ویران بہت
دوستو آج نہ گھر جاؤ کہ کچھ رات کٹے

چھوڑ آئے ہو سرشام اُسے کیوں ناصر
اُسے پھر گھر سے بلا لاؤ کہ کچھ رات کٹے

شاعر ناصر کاظمی