kisi kalie ne bhi dekha nah aankh bhar ke mujhe

kisi kalie ne bhi dekha nah aankh bhar ke mujhe

کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
گزر گئی جرس گل اداس کرکے مجھے
میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستاں میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے
میں تیرے درد کی تغیانیوں میں ڈوب گیا
پکارتے رہے تارے ابھر ابھر کے مجھے
تیرے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی
مزے ملے انہی راتوں میں عمر بھر کے مجھے
ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غمِ دنیا
بلا رہا ہے کوئی بام سے اتر کے مجھے

شاعر ناصر کاظمی

Hoti hain tere naam se wehshat kahhi kabhi | Nasir Kazim

Hoti hain tere naam se wehshat kahhi kabhi

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی

اے دل کسے نصیب یہ توفیقِ اضطراب
ملتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی

تیرے کرم سے اے عالمِ حُسنِ آفریں
دل بن گیا ہے دوست کی خلوت کبھی کبھی

جوشِ جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ
آنکھوں میں ڈھل گئی تیری صورت کبھی کبھی

تیرے قریب رہ کے بھی دل مطمئن نہ تھا
گزری ہے مجھ پہ بھی یہ قیامت کبھی کبھی

کچھ اپنا ہوش تھا نہ تمہارا خیال تھا
یوں بھی گزر گئی شبِ فرقت کبھی کبھی

اے دوست ہم نے ترکِ محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

شاعر ناصر کاظمی

Ya din mujhe ishhq ne dukhaay | Nasir Kazmi

Ya din mujhe ishhq ne dukhaay

یا دن مجھے عشق نے دکھائے
اِک بار جو آئے پھر نہ آئے

اُس پیکرِ ناز کا فسانہ
دل ہوش میں آئے تو سُنائے

وہ روحِ خیال و جانِ مضموں
دل اس کو کہاں سے ڈھونڈھ لائے

آنکھیں تھیں کہ دو چھلکتے ساغر
عارض کہ شراب تھتھرائے

مہکی ہوئی سانس نرم گفتار
ہر ایک روش پہ گل کلکھلائے

راہوں پہ ادا ادا سے رقصاں
آنچل میں حیا سے منہ چھپائے

اڑتی ہوئی زلف یوں پریشاں
جیسے کوئی راہ بھول جائے

کچھ پھول برس پڑے زمیں پر
کچھ گیت ہوا میں لہلہائے

شاعر ناصر کاظمی

Ishq mein jeet hui ya maat | Nasir Kazmi

Ishq mein jeet hui ya maat

عشق میں جیت ہوئی یا مات
آج کی رات نہ چھیڑ یہ بات

یوں آیا وہ جانِ بہار
جیسے جگ میں پھیلے بات

رنگ کھُلے صحرا کی دھوپ
زلف گھنے جنگل کی رات

کچھ نہ کہا اور کچھ نہ سُنا
دل میں رہ گئی دل کی بات

یار کی نگری کوسوں دور
کیسے کٹے گی بھاری رات

بستی والوں سے چھپ کر
رو لیتے ہیں پچھلی رات

سنّاٹوں میں سنتے ہیں
سُنی سُنائی کوئی بات

پھر جاڑے کی رت آئی
چھوٹا دن اور لمبی رات

شاعر ناصر کاظمی

Girafta dil hain bahot aaj tere diwane | Nasir Kazmi

Girafta dil hain bahot aaj tere diwane

گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے

مٹی مٹی سی امیدیں تھکے تھکے سے خیال
بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے

ہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا
یہ اور بات کہ پوچھا نہ اہلِ دنیا نے

بقدرِ تشنہ لبی پرسشِ وفا نہ ہوئی
چھلک کے رہ گۓ تیری نظر کے پیمانے

خیال آ گیا مایوس رہ گزاروں کا
پلٹ کے آ گۓ منزل سے تیرے دیوانے

کہاں ہے تو کہ ترے انتطار میں اے دوست
تمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانے

امیدِ پرسشِ غم کس سے کیجیے ناصر
جو اپنے دل پہ گزرتی ہے کوئی کیا جانے

شاعر ناصر کاظمی

Tire milne ko bekal ho gae hain | Nasir Kazmi

Tire milne ko bekal ho gae hain

ترے ملنے کو بے کل ہو گۓ ہیں
مگر یہ لوگ پاگل ہو گۓ ہیں

بہاریں لے کے آئے تھے جہاں تم
وہ گھر سنسان جنگل ہو گۓ ہیں

یہاں تک بڑھ گۓ آلامِ ہستی
کہ دل کے حوصلے شل ہو گۓ ہیں

کہاں تک لائے ناتواں دل
کہ صدمے اب مسلسل ہو گۓ ہیں

انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہو گۓ ہیں

جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گۓ ہیں

شاعر ناصر کاظمی

Naz e beygangi mein kya kuch tha | Nasir Kazmi

Naz e beygangi mein kya kuch tha

نازِ بیگانگی میں کیا کچھ تھا

حسن کی سادگی میں کیا کچھ تھا

لاکھ راہیں تھیں لاکھ جلوے تھے

عہدِ آوارگی میں کیا کچھ تھا

آنکھ کھلتے ہی چھپ گئی ہر شے

عالمِ بے خودی میں کیا کچھ تھا

یاد ہیں مرحلے محبّت کے

ہائے اس بے کلی میں کیا کچھ تھا

کتنے بیتے دنوں کی یاد آئی

آج تیری کمی میں کیا کچھ تھا

کتنے مانوس لوگ یاد آئے

صبح کی چاندنی میں کیا کچھ تھا

رات بھر ہم نہ سو سکے ناصر

پردۂ خامشی میں کیا کچھ تھا

شاعر ناصر کاظمی

Sadaye raftagan phir dil se guzri | Nasir Kazmi

Sadaye raftagan phir dil se guzri

صدائے رفتگاں پھر دل سے گزری
نگاہِ شوق کس منزل سے گزری

کبھی روئے کبھی تجھ کو پکارا
شبِ فرقت بڑی مشکل سے گزری

ہوائے صبح نے چونکا دیا یوں
تری آواز جیسے دل سے گزری

مرا دل خوگرِ طوفاں ہے ورنہ
یہ کشتی بار ہا ساحل سے گزری

شاعر ناصر کاظمی