Jab bahar aai to sehra ki taraf chal nikla

Jab bahar aai to sehra ki taraf chal nikla

جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا
صحنِ گل چھوڑ گیا، دل مرا پاگل نکلا
جب اُسے ڈھونڈنے نکلے تو نشاں تک نہ ملا
دل میں موجود رہا، آنکھ سے اوجھل نکلا
اک ملاقات تھی جو دل کو سدا یاد رہی
ہم جسے عمر سمجھتے تھے، وہ اک پل نکلا
وہ جو افسانۂ غم سن کے ہنسا کرتے تھے
اتنے روئے ہیں کہ سب آنکھ کا کاجل نکلا
ہم سکون ڈھونڈنے نکلے تھے پریشان رہے
شہر تو شہر ہے، جنگل بھی نہ جنگل نکلا
کون ایوب پریشان نہیں تاریکی میں
چاند افلاک پہ، دل سینے میں بے کل نکلا

(ٓایوب رومانی)

Koi Hasrat Bhi Nahi Koi Tamanna Bhi Nahi

Koi Hasrat Bhi Nahi Koi Tamanna Bhi Nahi

کوئی حسرت بھی نہیں کوئی تمنا بھی نہیں
دل وہ آنسو جو کسی آنکھ سے چھلکا بھی نہیں
روٹھ کر بیٹھ گئ ہمت دشوار پسند
راہ میں اب کوئی جلتا ھوا صحرا بھی نہیں
آگے کچھ لوگ ھمیں دیکھ کے ھنس دیتے تھے
اب یہ عالم ھے کہ کوئی دیکھنے والا بھی نہیں
درد وہ آگ کہ بجھتی نہیں جلتی بھی نہیں
یاد وہ زخم کہ بھرتا نہیں ، رستا بھی نہیں
باد باں کھول کے بیٹھے ھیں سفینوں والے
پار اترنے کے لیے ہلکا سا جھونکا بھی نہیں

شاعر احمد راہی

kisi kalie ne bhi dekha nah aankh bhar ke mujhe

kisi kalie ne bhi dekha nah aankh bhar ke mujhe

کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
گزر گئی جرس گل اداس کرکے مجھے
میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستاں میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے
میں تیرے درد کی تغیانیوں میں ڈوب گیا
پکارتے رہے تارے ابھر ابھر کے مجھے
تیرے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی
مزے ملے انہی راتوں میں عمر بھر کے مجھے
ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غمِ دنیا
بلا رہا ہے کوئی بام سے اتر کے مجھے

شاعر ناصر کاظمی

Dil K Sunsaan Jazeeron Ki Khabar Laye Ga

Dil K Sunsaan Jazeeron Ki Khabar Laye Ga

دل کے سنسان جزیروں کی خبر لائے گا
درد پہلو سے جدا ہو کے کہاں جائے گا
کون ہوتا ہے کسی کا شبِ تنہائی میں
غمِ فرقت ہی غمِ عشق کو بہلائے گا
چاند کے پہلو میں دم سادھ کے روتی ہے کرن
آج تاروں فُسوں خاک نظر آئے گا
راکھ میں آگ بھی ہے غمِ محرومی کی
راکھ ہو کر بھی یہ شعلہ ہمیں سلگائے گا
وقت خاموش ہے رُوٹھے ہوئے یاروں کی طرح
کون لو دیتے ہوئے زخموں کو سہلائے گا
دھوپ کو دیکھ کے اس جسم پہ پڑتی ہے چمک
چھاؤں دیکھیں گے تو اس زلف کا دھیان آئے گا
زندگی چل کہ زرا موت کا دم خم دیکھیں
ورنہ یہ جذبہ لحد تک ہمیں لے جائے گا

احمد راہی

Ishq kr k Mukar Gayi Ho Gyi

Ishq kr k Mukar Gayi Ho Gyi

عشق کر کے مکر گئی ہوگی
وہ تو لڑکی ہے ڈر گئی ہوگی

عادتیں سب خراب کر کے مری
آپ وہ خود سدھر گئی ہوگی

کر کے وعدے بھلا دیئے ہوں گے
کھا کے قسمیں مکر گئی ہوگی

اس کی بس اک ادا ہی محفل میں
سب کو دیوانہ کر گئی ہوگی

روبرو ہے پر اشتیاق نہیں
نیت_شوق بھر گئی ہوگی

میں تھا پتھر وہ کانچ کی گڑیا
ٹوٹ کر ہی بکھر گئی ہوگی

میں جو اس سے بچھڑا ہوں
وہ تو جیتے جی مر گئی ہوگی

شرجیل اعزاز شرجی

Wafa Ka Ehad Tha Dil Ko

Wafa Ka Ehad Tha Dil Ko

وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لیے
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لیے

بندھا ہوا ہے اب بہاروں کا وہاں تانتا
جہاں رکا تھا میں کانٹے نکالنے کےلیے

کبھی ہماری ضرورت پڑے گی دنیا کو
دلوں کی برف کو شعلوں میں ڈھالنے کے لیے

کنویں میں پھینک کے پچھتا رہا ہوں دانش
کمند جو تھی مناروں پہ ڈالنے کے لیے

شاعر احسان دانش

Humnasheen! Puch Na Mujh Se Ke Mohabbat Kya Hai

Humnasheen! Puch Na Mujh Se Ke Mohabbat Kya Hai

ہمنشیں! پوچھ نہ مجھ سے کہ محبت کیا ہے
اشک آنکھوں میں ابل آتے ہیں اس نام کے ساتھ
تجھ کو تشریحِ محبت کا پڑا ہے دورہ
پھر رہا ہے مرا سر گردشِ ایام کے ساتھ
سن کر نغموں میں ہے محلول یتیموں کی فغاں!
قہقہے گونج رہے ہیں یہاں کہرام کے ساتھ
پرورش پاتی ہے دامانِ رفاقت میں ریا
اہلِ عرفاں کی بسر ہوتی ہے اصنام کے ساتھ
کوہ و صحرا میں بہت خوار لئے پھرتی ہے
کامیابی کی تمنا دلِ ناکام کے ساتھ
یاس آئینۂ امید میں نقاشِ الم
پختہ کاری کا تعلق ہوسِ خام کے ساتھ
شب ہی کچھ نازکشِ پرتوِ خورشید نہیں
سلسلہ تونگر کے شبستاں میں چراغانِ بہشت
وعدۂ خلدِ بریں کشتۂ آلام کے ساتھ
کون معشوق ہے ، کیا عشق ہے ، سودا کیا ہے؟
میں تو اس فکر میں گم ہوں کہ یہ دنیا ہے

شاعر احسان دانش

Najane mujh se kya pocha gaya tha

Najane mujh se kya pocha gaya tha

نجانے مُجھ سے کیا پُوچھا گیا تھا
مگر لب پر تِرا نام آ گیا تھا

مُحیط اِک عُمر پر ہے فاصلہ وہ
مِری جاں بِیچ جو رکھا گیا تھا

سُنو سرپنچ کا یہ فیصلہ بھی
وہ مُجرم ہے جِسے لُوٹا گیا تھا

بِٹھایا سر پہ لوگوں نے مُجھے بھی
لِباسِ فاخِرہ پہنا گیا تھا

اُسے رُخ یُوں بدلتے دیکھ کر میں
چُھپا جو مُدعا تھا پا گیا تھا

نہیں جانا تھا مُجھ کو اُس نگر کو
کسی کا حُکم آیا تھا، گیا تھا

فقط کُچھ دِن گُزارے سُکھ میں مَیں نے
پِھر اُس کے بعد بادل چھا گیا تھا

نہِیں وہ شخص تو اب جانا کیسا
جہاں مَیں مدّتوں آیا گیا تھا

رشید اُس نے ہی سُولی پر چڑھایا
جو بچّہ غم کا اِک پالا گیا تھا

رشِید حسرتؔ