Ek Baar Kaho Tum Meri Ho | Ibn E Insha | Urdu Poetry

ہم گُھوم چکے بَستی بَن میں
اِک آس کی پھانس لیے مَن میں
کوئی ساجن ہو، کوئی پیارا ہو
کوئی دیپک ہو، کوئی تارا ہو
جب جیون رات اندھیری ہو
اِک بار کہو تم میری ہو
جب ساون بادل چھائے ہوں
جب پھاگن پُول کِھلائے ہوں
جب چندا رُوپ لُٹا تا ہو
جب سُورج دُھوپ نہا تا ہو
یا شام نے بستی گھیری ہو
اِک بار کہو تم میری ہو
ہاں دل کا دامن پھیلا ہے
کیوں گوری کا دل مَیلا ہے
ہم کب تک پیت کے دھوکے میں
تم کب تک دُور جھروکے میں
کب دید سے دل کو سیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو
کیا جھگڑا سُود خسارے کا
یہ کاج نہیں بنجارے کا
سب سونا رُوپ لے جائے
سب دُنیا، دُنیا لے جائے
تم ایک مجھے بہتیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو

ابنِ انشاء

Farz karo ibn e insha | Ibn-e-Insha

فرض کرو ہم اہلِ وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں
فرض کرو یہ جی کی بپتا جی سے جوڑ سنائی ہو
فرض کرو ابھی اور ہو اتنی،آدھی ہم نے چھپائی ہو
فرض کرو تمھیں خوش کرنے کے ڈھونڈے ہم نے بہانے ہوں
فرض کرو یہ نین تمھارے سچ مچ کے میخانے ہوں
فرض کرو یہ روگ ہو جھوٹا، جھوٹی پیت ہماری ہو
فرض کرو اس پیت کے روگ میں سانس بھی ہم پہ بھاری ہو
فرض کرو یہ جوگ بجوگ کا ہم نے ڈھونگ رچایا ہو
فرض کرو بس یہی حقیقت، باقی سب کچھ مایا ہو۔

شاعر ابن انشاء

Haal dil jis ne suna giryaa kya | Ibn-e-Insha

حال دل جس نے سنا گریہ کیا
ہم نہ روئے ہا ں ترا کہنا کیا

یہ تو اک بے مہر کا مذکورہ ہے
تم نے جب وعدہ کیا ایفا کیا

پھر کسی جان وفا کی یاد نے
اشک بے مقدور کو دریا کیا

تال دو نینوں کے جل تھل ہو گئے
ابر رسا اک رات بھر برسا کیا

دل زخموں کی ہری کھیتی ہوئی
کام ساون کا کیا اچھا کیا

آپ کے الطاف کا چرچا کیا
ہاں دل بے صبر نے رسوا کیا

شاعر ابن انشاء

Sab moh maya hai | Ibn-e-Insha

سب مایا ہے، سب ڈھلتی پھرتی چھایا ہے

اس عشق میں ہم نے جو کھویا جو پایا ہے

جو تم نے کہا ہے، فیض نے جو فرمایا ہے

سب مایا ہے

ہاں گاہے گاہے دید کی دولت ہاتھ آئی

یا ایک وہ لذت نام ہے جس کا رسوائی

بس اس کے سوا تو جو بھی ثواب کمایا ہے

سب مایا ہے

اک نام تو باقی رہتا ہے، گر جان نہیں

جب دیکھ لیا اس سودے میں نقصان نہیں

تب شمع پہ دینے جان پتنگا آیا ہے

سب مایا ہے

معلوم ہمیں سب قیس میاں کا قصہ بھی

سب ایک سے ہیں، یہ رانجھا بھی یہ انشا بھی

فرہاد بھی جو اک نہر سی کھود کے لایا ہے

سب مایا ہے

کیوں درد کے نامے لکھتے لکھتے رات کرو

جس سات سمندر پار کی نار کی بات کرو

اس نار سے کوئی ایک نے دھوکا کھایا ہے

سب مایا ہے

جس گوری پر ہم ایک غزل ہر شام لکھیں

تم جانتے ہو ہم کیونکر اس کا نام لکھیں

دل اس کی بھی چوکھٹ چوم کے واپس آیا ہے

سب مایا ہے

وہ لڑکی بھی جو چاند نگر کی رانی تھی

وہ جس کی الھڑ آنکھوں میں حیرانی تھی

آج اس نے بھی پیغام یہی بھجوایا ہے

سب مایا ہے

جو لوگ ابھی تک نام وفا کا لیتے ہیں

وہ جان کے دھوکے کھاتے، دھوکے دیتے ہیں

ہاں ٹھوک بجا کر ہم نے حکم لگایا ہے

سب مایا ہے

جب دیکھ لیا ہر شخص یہاں ہرجائی ہے

اس شہر سے دور ایک کُٹیا ہم نے بنائی ہے

اور اس کُٹیا کے ماتھے پر لکھوایا ہے

سب مایا ہے

شاعر ابن انشاء