Ishq kr k Mukar Gayi Ho Gyi

Ishq kr k Mukar Gayi Ho Gyi

عشق کر کے مکر گئی ہوگی
وہ تو لڑکی ہے ڈر گئی ہوگی

عادتیں سب خراب کر کے مری
آپ وہ خود سدھر گئی ہوگی

کر کے وعدے بھلا دیئے ہوں گے
کھا کے قسمیں مکر گئی ہوگی

اس کی بس اک ادا ہی محفل میں
سب کو دیوانہ کر گئی ہوگی

روبرو ہے پر اشتیاق نہیں
نیت_شوق بھر گئی ہوگی

میں تھا پتھر وہ کانچ کی گڑیا
ٹوٹ کر ہی بکھر گئی ہوگی

میں جو اس سے بچھڑا ہوں
وہ تو جیتے جی مر گئی ہوگی

شرجیل اعزاز شرجی

Wafa Ka Ehad Tha Dil Ko

Wafa Ka Ehad Tha Dil Ko

وفا کا عہد تھا دل کو سنبھالنے کے لیے
وہ ہنس پڑے مجھے مشکل میں ڈالنے کے لیے

بندھا ہوا ہے اب بہاروں کا وہاں تانتا
جہاں رکا تھا میں کانٹے نکالنے کےلیے

کبھی ہماری ضرورت پڑے گی دنیا کو
دلوں کی برف کو شعلوں میں ڈھالنے کے لیے

کنویں میں پھینک کے پچھتا رہا ہوں دانش
کمند جو تھی مناروں پہ ڈالنے کے لیے

شاعر احسان دانش

Humnasheen! Puch Na Mujh Se Ke Mohabbat Kya Hai

Humnasheen! Puch Na Mujh Se Ke Mohabbat Kya Hai

ہمنشیں! پوچھ نہ مجھ سے کہ محبت کیا ہے
اشک آنکھوں میں ابل آتے ہیں اس نام کے ساتھ
تجھ کو تشریحِ محبت کا پڑا ہے دورہ
پھر رہا ہے مرا سر گردشِ ایام کے ساتھ
سن کر نغموں میں ہے محلول یتیموں کی فغاں!
قہقہے گونج رہے ہیں یہاں کہرام کے ساتھ
پرورش پاتی ہے دامانِ رفاقت میں ریا
اہلِ عرفاں کی بسر ہوتی ہے اصنام کے ساتھ
کوہ و صحرا میں بہت خوار لئے پھرتی ہے
کامیابی کی تمنا دلِ ناکام کے ساتھ
یاس آئینۂ امید میں نقاشِ الم
پختہ کاری کا تعلق ہوسِ خام کے ساتھ
شب ہی کچھ نازکشِ پرتوِ خورشید نہیں
سلسلہ تونگر کے شبستاں میں چراغانِ بہشت
وعدۂ خلدِ بریں کشتۂ آلام کے ساتھ
کون معشوق ہے ، کیا عشق ہے ، سودا کیا ہے؟
میں تو اس فکر میں گم ہوں کہ یہ دنیا ہے

شاعر احسان دانش

Najane mujh se kya pocha gaya tha

Najane mujh se kya pocha gaya tha

نجانے مُجھ سے کیا پُوچھا گیا تھا
مگر لب پر تِرا نام آ گیا تھا

مُحیط اِک عُمر پر ہے فاصلہ وہ
مِری جاں بِیچ جو رکھا گیا تھا

سُنو سرپنچ کا یہ فیصلہ بھی
وہ مُجرم ہے جِسے لُوٹا گیا تھا

بِٹھایا سر پہ لوگوں نے مُجھے بھی
لِباسِ فاخِرہ پہنا گیا تھا

اُسے رُخ یُوں بدلتے دیکھ کر میں
چُھپا جو مُدعا تھا پا گیا تھا

نہیں جانا تھا مُجھ کو اُس نگر کو
کسی کا حُکم آیا تھا، گیا تھا

فقط کُچھ دِن گُزارے سُکھ میں مَیں نے
پِھر اُس کے بعد بادل چھا گیا تھا

نہِیں وہ شخص تو اب جانا کیسا
جہاں مَیں مدّتوں آیا گیا تھا

رشید اُس نے ہی سُولی پر چڑھایا
جو بچّہ غم کا اِک پالا گیا تھا

رشِید حسرتؔ

Kabhi waqt miley to aa jao – Asif Shafi

Kabhi waqt miley to aa jao

کبھی وقت ملے تو آجاؤ
ہم جھیل کنارے مل بیٹھیں
تم اپنے سکھ کی بات کرو
ہم اپنے دکھ کی بات کریں
ہم ان لمحوں کی بات کریں
جو ساتھ تمہارے بیت گئے
اور عہدِ خزاں کی نذر ہوئے
ہم شہرِِ خواب کے باسی ہیں
تم چاند ستاروں کی ملکہ
ان سبز رتوں کے دامن میں
ہم پیار کی خوشبو مہکائیں
ان بکھرے سبز نظاروں کو
ہم آنکھوں میں تصویر کریں
پتھر پر گرتے پانی کو
ہم خوابوں سے تعبیر کریں
اس وقت کے ڈوبتے سورج کو
ہم چاہت کی جاگیر کریں
اور اپنے پیار کے جادو سے
ان لمحوں کو زنجیر کریں
کبھی وقت ملے تو آ جاؤ
ہم جھیل کنارے مل بیٹھیں

— آصف شفیع —

Wo Koi Aur Na Tha Chand Khusk Patay Thay

Wo Koi Aur Na Tha Chand Khusk Patay Thay

وہ کوئی اور نہ تھا چند خشک پتے تھے
شجر سے ٹوٹ کے جو فصل گل پہ روئے تھے

ابھی ابھی تمہیں سوچا تو کچھ نہ یاد آیا
ابھی ابھی تو ہم اک دوسرے سے بچھڑے تھے

تمہارے بعد چمن پر جب اک نظر ڈالی
کلی کلی میں خزاں کے چراغ جلتے تھے

تمام عمر وفا کے گناہ گار رہے
یہ اور بات کہ ہم آدمی تو اچھے تھے

شب خموش کو تنہائی نے زباں دے دی
پہاڑ گونجتے تھے دشت سنسناتے تھے

وہ ایک بار مرے جن کو تھا حیات سے پیار
جو زندگی سے گریزاں تھے روز مرتے تھے

نئے خیال اب آتے ہیں ڈھل کے آہن میں
ہمارے دل میں کبھی کھیت لہلہاتے تھے

یہ ارتقا کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں
پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے تھے

ندیمؔ جو بھی ملاقات تھی ادھوری تھی
کہ ایک چہرے کے پیچھے ہزار چہرے تھے

شاعر احمد ندیم قاسمی

KHamosh Ho Kyun Dad-e-jafa Kyun Nahin Dete | Ahmad Faraz

KHamosh Ho Kyun Dad-e-jafa Kyun Nahin Dete

خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے

وحشت کا سبب روزنِ زنداں تو نہیں ہے
مہر و مہ و انجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے

اِک یہ بھی تو اندازِ علاجِ غمِ جاں ہے
اے چارہ گرو! درد بڑھا کیوں نہیں دیتے

منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے

رہزن ہو تو حاضر ہے متاعِ دل و جاں بھی
رہبر ہو تو منزل کا پتہ کیوں نہیں دیتے

کیا بیت گئی اب کے فرازؔ اہلِ چمن پر
یارانِ قفس مجھ کو صدا کیوں نہیں دیتے

احمد فراز

Hoti hain tere naam se wehshat kahhi kabhi | Nasir Kazim

Hoti hain tere naam se wehshat kahhi kabhi

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی

اے دل کسے نصیب یہ توفیقِ اضطراب
ملتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی

تیرے کرم سے اے عالمِ حُسنِ آفریں
دل بن گیا ہے دوست کی خلوت کبھی کبھی

جوشِ جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ
آنکھوں میں ڈھل گئی تیری صورت کبھی کبھی

تیرے قریب رہ کے بھی دل مطمئن نہ تھا
گزری ہے مجھ پہ بھی یہ قیامت کبھی کبھی

کچھ اپنا ہوش تھا نہ تمہارا خیال تھا
یوں بھی گزر گئی شبِ فرقت کبھی کبھی

اے دوست ہم نے ترکِ محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

شاعر ناصر کاظمی