La Phir Ik Bar Wohi Bada o Jaam A Saqi

La Phir Ik Bar Wohi Bada o Jaam A Saqi

لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آ جائے مجھے میرا مقام اے ساقی
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی
مری مینائے غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ ہے یہ بھی حرام اے ساقی
شیر مردوں سے ہوا بیشہَ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و مُلّا کے غلام اے ساقی
عشق کی تیغِ جگر دار اُڑا لی کس نے
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
سینہ روشن ہو تو ہے سوزِ سخن عینِ حیات
ہو نہ روشن تو سخن مرگِ دوام اے ساقی
تو مری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
ترے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی
علامہ محمد اقبال
8- بالِ جبریل

Digargon hai Jahan Taron ki Gardish Tez hai Saqi

Digargon hai Jahan Taron ki Gardish Tez hai Saqi

دگرگوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
دل ہر ذرہ میں غوغائے رستاخیز ہے ساقی
دگرگوں ہے جہاں تاروں کی گردش تیز ہے ساقی
دل ہر ذرہ میں غوغائے رستاخیز ہے ساقی
وہی دیرینہ بیماری وہی نامحکمی دل کی
علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی
حرم کے دل میں سوزِ آرزو پیدا نہیں ہوتا
کہ پیدائی تری اب تک حجاب آمیز ہے ساقی
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آب و گلِ ایراں ، وہی تبریز ہے ساقی
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
فقیرِ راہ کو بخشے گئے اسرارِ سلطانی
بہا میری نوا کی دولتِ پرویز ہے ساقی
علامہ محمد اقبال
7- بالِ جبریل

Preshan Ho Ke Meri  Khak Akhir Dil Na Ban Jaye

Preshan Ho Ke Meri  Khak Akhir Dil Na Ban Jaye
پریشاں ہو کے میری خاک آخر دل نہ بن جائے
جو مشکل اب ہے یارب پھر وہی مشکل نہ بن جائے
نہ کر دیں مجھ کو مجبورِ نوا فردوس میں حوریں
مرا سوزِ دروں پھر گرمیِ محفل نہ بن جائے
کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو
کھٹک سی ہے جو سینے میں غمِ منزل نہ بن جائے
بنایا عشق نے دریائے ناپیدا کراں مجھ کو
یہ میری خود نگہداری مرا ساحل نہ بن جائے
کہیں اس عالم بے رنگ و بو میں بھی طلب میری
وہی افسانہَ دنبالہَ محمل نہ بن جائے
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے
علامہ محمد اقبال
7- بالِ جبریل

Kia ishq aik zindagi e mustaar ka

Kia ishq aik zindagi e mustaar ka

کیا عشق ایک زندگی مستعار کا
کیا عشق پائدار سے ناپائدار کا
وہ عشق جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک
اس میں مزا نہیں تپش و انتظار کا
مری بساط کیا ہے، تب و تاب یک نفس
شعلے سے بے محل ہے الجھنا شرار کا
کر پہلے مجھ کو زندگی جاوداں عطا
پھر ذوق و شوق دیکھ دلِ بے قرار کا
کانٹا وہ دے جس کی کھٹک لازوال ہو
یارب، وہ درد جس کی کسک لازوال ہو

    5- بالِ جبریل

Asar Kare Na Kare sun To Le Meri Faryad

Asar Kare Na Kare sun To Le Meri Faryad

اثر کرے نہ کرے سن تو لے میری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب یہ بندۂ آزاد
یہ مشت خاک، یہ صرصر، یہ وسعت افلاک
کرم ہے یا کہ ستم تیری لذت ایجاد
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصل بہاری؟ یہی ہے باد مراد؟
قصوروار غریب الدیار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد
مری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے
وہ دشت سادہ وہ تیرا جہان بے بنیاد
خطر پسند طبیعت کو سازگار نہیں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات میں نہ ہو صیاد
مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد

علامہ محمد اقبال

                   4- بالِ جبریل

Agar Kaj Ro Hain Anjum Asman Tera Hai Ya Mera

Agar Kaj Ro Hain Anjum Asman Tera Hai Ya Mera

اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا

مجھے فکر جہاں کیوں ہو جہاں تیرا ہے یا میرا

اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے لا مکاں خالی

خطا کس کی ہے یا رب لا مکاں تیرا ہے یا میرا

اسے صبح ازل انکار کی جرأت ہوئی کیوں کر

مجھے معلوم کیا وہ رازداں تیرا ہے یا میرا

محمد بھی ترا جبریل بھی قرآن بھی تیرا

مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا

اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن

زوال آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا

علامہ محمد اقبال

                     2- بالِ جبریل

Meri Navaa-e-shauq Se Shor Hariim-e-zaat Main

Meri Navaa-e-shauq Se Shor Hariim-e-zaat Main

میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں

غلغلہ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں

حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخلیات میں

میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں

گرچہ ہے میری جُستجو دیر و حرم کی نقش بند

میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں

گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود

گاہ اُلجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں

تو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیا

میں ہی تو ایک راز تھا سینہ کائنات میں

علامہ محمد اقبال

                     بالِ جبریل1