Jitni duayen ati theen | Wasi Shah
Jitni duayen ati theen
جتنی دعائیں آتی تھیں
سب مانگ لیں ہم نے
جتنے وظیفے یاد تھے سارے
کر بیٹھے ہیں
کئی طرح سے جی کر دیکھا ہے
کئی طرح سے مر بیٹھے ہیں
لیکن جاناں
کسی بھی صورت
تم میرے ہو کر نہیں دیتے
Urdu Famous Poets
جتنی دعائیں آتی تھیں
سب مانگ لیں ہم نے
جتنے وظیفے یاد تھے سارے
کر بیٹھے ہیں
کئی طرح سے جی کر دیکھا ہے
کئی طرح سے مر بیٹھے ہیں
لیکن جاناں
کسی بھی صورت
تم میرے ہو کر نہیں دیتے
ہم سے کیا پوچھتے ہو ہجر میں کیا کرتے ہیں
تیرے لوٹ آنے کی دن رات دعا کرتے ہیں
اب کوئی ہونٹ نہیں ان کو چرانے آتے
میری آنکھوں میں اگر اشک ہوا کرتے ہیں
تیری تو جانے ،پر اے جان تمنا ہم تو
سانس کے ساتھ تجھے یاد کیا کرتے ہیں
کبھی یادوں میں تجھے بانہوں میں بھر لیتے ہیں
کبھی خوابوں میں تجھے چوم لیا کرتے ہیں
تیری تصویر لگا لیتے ہیں ہم سینے سے
پھر ترے خط سے تری بات کیا کرتے ہیں
گر تجھے چھوڑنے کی سوچ بھی آئے دل میں
ہم تو خود کو بھی وہیں چھوڑ دیا کرتے ہیں
جتنی دعائیں آتی تھیں سب مانگ لیں ہم نے جتنے وظیفے یاد تھے سارے کر بیٹھے ہیں کئی طرح سے جی کر دیکھا ہے کئی طرح سے مر بیٹھے ہیں لیکن جاناں کسی بھی صورت تم میرے ہو کر نہیں دیتے شاعر وصی شاہ
یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے
ساتھ چل موجِ صبا ہو جیسے
لوگ یوں دیکھ کر ہنس دیتے ہیں
تو مجھے بھول گیا ہو جیسے
موت بھی آئی تو اس ناز کے ساتھ
مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے
ایسے انجان بنے بیٹھے ہو
تم کو کچھ بھی نہ پتا ہو جیسے
ہچکیاں رات کو آتی ہی رہیں
تو نے پھر یاد کیا ہو جیسے
زندگی بیت رہی ہے دانش
اک بے جرم سزا ہو جیسے
نظر فریبِ قضا کھا گئی تو کیا ہوگا
حیات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہوگا
نئی سحر کے بہت لوگ منتظر ہیں مگر
نئی سحر بھی کجلا گئی تو کیا ہوگا
نہ رہنماؤں کی مجلس میں لے چلو مجھے
میں بے ادب ہوں ہنسی آگئی تو کیا ہوگا
غمِ حیات سے بے شک ہے خود کشی آسان
مگر جو موت بھی شرما گئی تو کیا ہوگا
شبابِ لالہ و گل کو پکارنے والو!
خزاں سرشتِ بہار آگئی تو کیا ہوگا
یہ فکر کر کے اس آسودگی کے ڈھوک میں
تیری خودی کو بھی موت آگئی تو کیا ہوگا
خوشی چھنی ہے تو غم کا بھی اعتماد نہ کر
جو روح غم سے بھی اکتا گئی تو کیا ہوگا
اشک آنکھوں میں ابل آتے ہیں اس نام کے ساتھ
تجھ کو تشریحِ محبت کا پڑا ہے دورہ
پھر رہا ہے مرا سر گردشِ ایام کے ساتھ
سن کر نغموں میں ہے محلول یتیموں کی فغاں!
قہقہے گونج رہے ہیں یہاں کہرام کے ساتھ
پرورش پاتی ہے دامانِ رفاقت میں ریا
اہلِ عرفاں کی بسر ہوتی ہے اصنام کے ساتھ
کوہ و صحرا میں بہت خوار لئے پھرتی ہے
کامیابی کی تمنا دلِ ناکام کے ساتھ
یاس آئینۂ امید میں نقاشِ الم
پختہ کاری کا تعلق ہوسِ خام کے ساتھ
شب ہی کچھ نازکشِ پرتوِ خورشید نہیں
سلسلہ تونگر کے شبستاں میں چراغانِ بہشت
وعدۂ خلدِ بریں کشتۂ آلام کے ساتھ
کون معشوق ہے ، کیا عشق ہے ، سودا کیا ہے؟
میں تو اس فکر میں گم ہوں کہ یہ دنیا ہے
شاعر احسان دانش
ہم گُھوم چکے بَستی بَن میں
اِک آس کی پھانس لیے مَن میں
کوئی ساجن ہو، کوئی پیارا ہو
کوئی دیپک ہو، کوئی تارا ہو
جب جیون رات اندھیری ہو
اِک بار کہو تم میری ہو
جب ساون بادل چھائے ہوں
جب پھاگن پُول کِھلائے ہوں
جب چندا رُوپ لُٹا تا ہو
جب سُورج دُھوپ نہا تا ہو
یا شام نے بستی گھیری ہو
اِک بار کہو تم میری ہو
ہاں دل کا دامن پھیلا ہے
کیوں گوری کا دل مَیلا ہے
ہم کب تک پیت کے دھوکے میں
تم کب تک دُور جھروکے میں
کب دید سے دل کو سیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو
کیا جھگڑا سُود خسارے کا
یہ کاج نہیں بنجارے کا
سب سونا رُوپ لے جائے
سب دُنیا، دُنیا لے جائے
تم ایک مجھے بہتیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو
فرض کرو ہم اہلِ وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں
فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں
فرض کرو یہ جی کی بپتا جی سے جوڑ سنائی ہو
فرض کرو ابھی اور ہو اتنی،آدھی ہم نے چھپائی ہو
فرض کرو تمھیں خوش کرنے کے ڈھونڈے ہم نے بہانے ہوں
فرض کرو یہ نین تمھارے سچ مچ کے میخانے ہوں
فرض کرو یہ روگ ہو جھوٹا، جھوٹی پیت ہماری ہو
فرض کرو اس پیت کے روگ میں سانس بھی ہم پہ بھاری ہو
فرض کرو یہ جوگ بجوگ کا ہم نے ڈھونگ رچایا ہو
فرض کرو بس یہی حقیقت، باقی سب کچھ مایا ہو۔