Ab tu ghabra ke ye kehte
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے |
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے |
چڑھ کے گر آئے تو نظروں سے اتر جائیں گے |
سامنے چشم گہر بار کے کہہ دو دریا |
اور اگر کچھ نہیں دو پھول تو دھر جائیں گے | لائے جو مست ہیں تربت پہ گلابی آنکھیں |
پہلے جب تک نہ دو عالم سے گزر جائیں گے | بچیں گے رہ گزر یار تلک کیونکر ہم |
جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے | آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی |
بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے | ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ سے |
مہر و مہ نظروں سے یاروں کی اتر جائیں گے | رخِ روشن سے نقاب اپنے الٹ دیکھو تم |
پر یہی ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے | شعلہ آہ کو بجلی کی طرح چمکاؤں |
ان کو مہ خانہ میں لے آؤ سنور جائیں گے | ذوق جو مدرسہ کے بگڑے ہوئے ہیں مُلا |
شاعر ابراہیم ذوق